Thursday, 3 July 2025

Scattering the Ashes

vs The Sunnah of Burial 


Ta-Ha (20:97)

قَالَ فَٱذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِى ٱلْحَيَوٰةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًۭا لَّن تُخْلَفَهُۥ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰٓ إِلَـٰهِكَ ٱلَّذِى ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًۭا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُۥ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُۥ فِى ٱلْيَمِّ نَسْفًا ٩٧


Moses said, “Go away then! And for ˹the rest of your˺ life you will surely be crying, ‘Do not touch ˹me˺!’[1] Then you will certainly have a fate[2] that you cannot escape. Now look at your god to which you have been devoted: we will burn it up, then scatter it in the sea completely.”

— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran

[1] Meaning, alienated in the dessert, away from the people.

[2] lit., destined time.


He (Mūsā) said, “Then go away; it is destined for you that, throughout your life, you will say: ‘Do not touch me’. And, of course, you have another promise that will not be broken for you. And look at your god to which you stayed devoted. We will certainly burn it, then we will scatter it thoroughly in the sea.

— T. Usmani


[Moses] said, "Then go. And indeed, it is [decreed] for you in [this] life to say, 'No contact.'[1] And indeed, you have an appointment [in the Hereafter] you will not fail to keep. And look at your 'god' to which you remained devoted. We will surely burn it and blow it [i.e., its ashes] into the sea with a blast.

— Saheeh International

[1]- i.e., Do not touch me.  As chastisement, he was to be completely shunned by all people.


Moses said, ‘Get away from here! Your lot in this life is to say, “Do not touch me,” but you have an appointment from which there is no escape. Look at your god which you have kept on worshipping- we shall grind it down and scatter it into the sea.

— M.A.S. Abdel Haleem


 97. Mûsâ (Moses) said: "Then go away! And verily, your (punishment) in this life will be that you will say: "Touch me not (i.e. you will live alone exiled away from mankind); and verily (for a future torment), you have a promise that will not fail. And look at your ilâh (god) to which you have been devoted. We will certainly burn it, and scatter its particles in the sea."

— Al-Hilali & Khan


(Moses) said: Then go! and lo! in this life it is for thee to say: Touch me not! and lo! there is for thee a tryst thou canst not break. Now look upon thy god of which thou hast remained a votary. Verily we will burn it and will scatter its dust over the sea.

— M. Pickthall


(Moses) said: "Get thee gone! but thy (punishment) in this life will be that thou wilt say, 'touch me not'; and moreover (for a future penalty) thou hast a promise that will not fail: Now look at thy god, of whom thou hast become a devoted worshipper: We will certainly (melt) it in a blazing fire and scatter it broadcast in the sea!"

— A. Yusuf Ali


موسیٰ نے کہا ” اچھا تو جا ، اب زندگی بھر تجھے یہی پکاتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لئے باز پرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو ریجھا ہوا تھا ، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔

— Fe Zilal al-Qur'an


موسیٰؑ نے کہا”اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پُکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھُونا۔ [1] اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تُو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے

— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi

[1]یعنی صر ف یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لیے معاشرے سے اس کے  تعلقات توڑ دیے گئے اور اسے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا ، بلکہ یہ ذمہ داری بھی اسی  پر ڈالی گئی کہ ہر شخص کو وہ خود اپنے اچھوت پن سے آگاہ کر ے اور دور ہی سے لوگوں  کو مطلع کرتا رہے کہ میں اچھوت ہوں، مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ بائیبل کی کتاب احبار میں  کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں اُن میں سے  ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ :

”اور جو کوڑھی اس بلا  میں مبتلا ہو اُس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر  کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلّا چلّا کر کہے ناپاک ناپاک۔ جتنے دنوں تک وہ اس بلا میں  مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک۔ پس وہ اکیلا رہے، اس کا مکان لشکر  گاہ کے باہر ہو“۔ (باب 13۔ آیت 45 – 4۶)

اس سے گمان ہوتا ہے کہ یا  تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر اس کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہو  گا، یاپھر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہو گی کہ جس طرح جسمانی کوڑھ کا مریض  لوگوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اُسی طرح اِس اخلاقی کوڑھ کے مریض کو بھی الگ کر دیا  جائے، اور یہ بھی کوڑھی کی طرح پکار پکار کر ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہے کہ  میں ناپاک ہوں ، مجھے نہ چھونا۔


(موسیٰ نے) کہا جا تجھ کو دنیا کی زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ کہتا رہے کہ مجھ کو ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لئے ایک اور وعدہ ہے (یعنی عذاب کا) جو تجھ سے ٹل نہ سکے گا اور جس معبود (کی پوجا) پر تو (قائم و) معتکف تھا اس کو دیکھ۔ ہم اسے جلادیں گے پھر اس (کی راکھ) کو اُڑا کر دریا میں بکھیر دیں گے

— Fatah Muhammad Jalandhari


کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھونا[1] ، اور ایک اور بھی وعده تیرے ساتھ ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا[2]، اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا اعتکاف کیے ہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر دریا میں ریزه ریزه اڑا دیں گے.[3]

— Maulana Muhammad Junagarhi

[1]یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا لا مِسَاسَ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔

[2]یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہرصورت بھگتنا پڑے گا۔

[3]اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس أَثَرِ الرَّسُولِ کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔


موسیٰ ؑ ٰ نے کہا : دفع ہوجاؤ ! اب تمہارے لیے زندگی میں یہی (سزا) ہے کہ تم کہتے رہوگے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے اور تمہارے لیے ایک وعدہ ہے جس کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کی جائے گی اور دیکھو اپنے اس معبود کو جس کا تم اعتکاف کرتے رہے ہو (ہم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں) ہم اسے جلا (کر راکھ کر) دیں گے پھر اس (کی راکھ) کو سمندر میں بکھیر دیں گے

—(( بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)


کہا موسٰی نے دور ہو تیرے لئے زندگی بھر تو اتنی سزا ہے کہ کہا کرے مت چھیڑو [1] اور تیرے واسطے ایک وعدہ ہے وہ ہرگز تجھ سے خلاف نہ ہو گا [2] اور دیکھ اپنے معبود کو جس پر تمام دن تو معتکف رہتا تھا ہم اسکو جلا دیں گے پھر بکھیر دیں گے دریا میں اڑا کر [3 ]

— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)

[1ضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ دنیا میں اسکو یہ ہی سزا ملی کہ لشکربنی اسرائیل سے باہر الگ رہتا۔ اگر وہ کسی سے ملتا یا کوئی اس سے تو دونوں کو تپ چڑھتی ، اسی لئے لوگوں کو دور دور کر تا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ایک وعدہ ہے جو خلاف نہ ہو گا۔ شاید مراد عذاب آخرت ہے اور شاید دجال کا نکلنا۔ وہ بھی یہود میں سامری کےفساد کی تکمیل کرے گا جیسے ہمارے پیغمبر مال بانٹتے تھے ، ایک شخص نے کہا انصاف سے بانٹو فرمایا  'اسکی جنس کے لوگ نکلیں گے' وہ خارجی نکلےکہ اپنے پیشواؤں پر لگے اعتراض پکڑنے جو کوئی دین کے پیشواؤں پر طعن کرے ایسا ہی ہے۔

[2]یعنی تیری سزا تو یہ ہوئی ۔ اب تیرے جھوٹے معبود کی قلعی بھی کھولے دیتا ہوں جس بچھڑےکو تو نے خدا بنایا اور دن بھر وہاں دل جمائے بیٹھا رہتا تھا ، ابھی تیری آنکھوں کے سامنے توڑ پھوڑ کر اور جلا کر راکھ کر دوں گا۔ پھر راکھ کو دریا میں بہا دوں گا۔ تا اس کے پجاریوں کو خوب واضح ہو جائے کہ وہ دوسروں کو تو کیا نفع نقصان پہنچاسکتا ۔ خود اپنے وجود کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔

[3]سامری کی سزا:یعنی مجھے ہاتھ مت لگاؤ مجھ سے علیحدہ رہو، چونکہ اس نے بچھڑے کا ڈھونگ بنایا تھا حب جاہ و ریاست سے کہ لوگ اس کے ساتھ ہوں اور سردار مانیں اس کے مناسب سزا ملی کہ کوئی پاس نہ پھٹکے ، جو قریب جائے وہ خود دور رہنے کی ہدایت کر  دے۔ اور  دنیا میں بالکل ایک ذلیل ، اچھوت ، اور وحشی جانور کی طرح زندگی گذارے۔


موسیٰ نے کہا کہ دور ہو اب تیرے ليے زندگی بھر یہ ہے کہ تو کہے کہ مجھ کو نہ چھونا اور تیرے ليے ایک اور وعدہ یہ ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں  اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا، ہم اس کو جلائیں گے پھر اس کو دریا میں بکھیر کر بہادیں گے

— Maulana Wahiduddin Khan

[https://quran.com/20/97]


A group of the Bani Israel indulged in polytheism. They began to worship a 'calf' conjured from the smelted ornaments of the nation (زِيۡنَةِ الۡقَوۡمِ). The magician, referred to by his title/attribution 'as-Samiri' (السَّامِرِىُّ‏) threw (أَلْقَى) something upon what they had thrown (فَقَذَفْنَاهَا), and they became dedicated to its worship. As-Samiri persuaded them that this is their god, whom Moses (Musa عليه السلام) had forgotten. This horrible event happened in the lifetime of Prophet-Messenger Moses (Musa عليه السلام). 

Allah سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى had rescued the Bani Israel by parting the sea for Moses (Musa عليه السلام). They were witness to the series of miraculous signs that Allah سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى had been bestowing upon Moses (Musa عليه السلام). Yet, soon after Moses (Musa عليه السلام) left to go up the mountain for his appointment with Allah سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى , they abandoned the Sunnah (way) of their Prophet, and followed the misguidance of as-Samiri. Not only were they misguided, they were determined on their misguidance, and even threatened to murder Prophet Aaron (Harun عليه السلام) when he tried to dissuade them from committing this horrible act. 

The punishment of as-Samiri, the magician, was that he was sent away (فَٱذْهَبْ), exiled from the Bani Israel, sentenced to not only being untouchable, but to actively plead throughout his life that no one touches him. Moreover, the 'calf', conjured from the wealth of the people, it was to be burned and its ashes scattered in the sea completely. 

The cow has been held holy in many ancient polytheistic religions, including Ancient Egypt. The Bani Israel had lived long enough among them to know their polytheistic mythology.  

In India, since ancient times, till today, the polytheists: 

  1. worship the cow,
  2. the Brahmins (religious class) consider themselves untouchable, 
  3. they worship their soul, considering it divine, 
  4. they burn most of their dead, and pulverise the remaining bones and teeth, 
  5. at the moment of cremation, the skull is fractured to enable the soul to escape, 
  6. the ashes (burnt remains and pulverised bones and teeth) are ceremoniously scattered in the waters they consider holy 
  7. few of their dead are not cremated, instead they are given a burial  

Abrahamic religions (Judaism, Christianity, and Islam) have traditionally buried their dead, as was the practice of their prophets and messengers. The body is shrouded in cloth, and interred in its grave. 

In modern times, cremation has become popular, with some people arguing that the scriptures are silent on the matter, and thus they are free to choose how to dispose off their dead. That is a straying away from the teachings and practice of all of God's messengers and prophets. It is the sunnah (way) of all of them that the dead are to be buried in the grave.  



Also read: 

Human: Body or Soul?  

as-Salaat vs Yoga 

Fuel of Hell: Humans and Stones 







...






No comments:

Post a Comment